بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ میں واشنگٹن کے براہ راست کردار کے واضح اعتراف کے بعد، بین الاقوامی قانون کے دائرے اور اس اقدام کی قانونی حیثیت کے بارے میں متعدد سوالات سامنے آئے ہیں، اور بین الاقوامی قانون کے بہت سے ماہرین نے اس بیان کو ایک خودمختار ملک کے خلاف غیرقانونی فوجی کارروائی میں شرکت کا سرکاری اعتراف قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر علی مطر، لبنان یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر، اور اور العہد نیوز ویب سائٹ کے ایڈیٹر انچیف اور بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قانون کے محقق نے اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی "ابنا" سے بات چیت کرتے ہوئے اس مسئلے کے قانونی اور سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لیا۔
ڈاکٹر علی مطر نے شروع میں زور دے کر کہا: "ایران کے خلاف جنگ میں امریکہ کی شرکت کا ڈونلڈ ٹرمپ کا اعتراف درحقیقت اس بات کی واضح تصدیق ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے جو کچھ کیا گیا وہ ایک ایک جارحانہ اقدام تھا۔ اس جنگ کا آغاز خود جارحیت کا واضح ثبوت ہے، اور اس میں امریکہ کی فوجی شرکت اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر اس لئے کہ سلامتی کونسل اس مداخلت کا جواز فراہم کرنے کے لئے کوئی قرارداد منظور نہیں کی تھی۔
انھوں نے کہا: اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق، کسی بھی ملک کو بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے استعمال کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ معاملہ آرٹیکل 2 کے پیراگراف 4 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اسی آرٹیکل کا پیراگراف 7 ممالک کے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ لہٰذا امریکہ اور اسرائیل کا اقدام نہ صرف ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کے خلاف کھلی جارحیت بھی سمجھا جاتا ہے۔
امن کے لئے خطرہ اور انسانی المیہ
علی مطر نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے یا اس کے خلاف جارحیت میں حصہ لینے کا حق نہیں رکھتا، سوائے سلامتی کونسل کی اجازت یا 'ذاتی دفاع' (Self-defense) کی صورت میں۔ اس کے مقابلے میں، اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت، حملہ آور ملک کو انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔
ڈاکٹر مطر نے واقعے کے انسانی پہلو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ایران کے خلاف فوجی کارروائی، جیسا کہ ٹرمپ نے کھلم کھلا اس کا اعتراف کیا، امریکی جنگی طیاروں کے ذریعے جوہری سہولیات کی بمباری شامل تھی، اور یہ آپریشن ایک جوہری اور انسانی المیے کا باعث بن سکتا تھا اور لاکھوں شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتا تھا۔ لہٰذا یہ اقدام نہ صرف جارحانہ ہے، بلکہ ایران، خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔
انھوں نے زور دیا: ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے، بین الاقوامی قانون کے تمام معیارات کے نقطہ نظر سے، ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کا اقدام غیرقانونی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
بین الاقوامی اداروں میں قانونی پیروی
بین الاقوامی فورمز میں اس معاملے کی پیروی کی ممکنہ صلاحیت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں، علی مطر نے وضاحت کی: ایران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے اس معاملے کو اٹھا سکتا ہے اور امریکہ کی مذمت کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ لیکن چونکہ امریکہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور ویٹو کا حق رکھتا ہے، اس لئے عملاً اس کے خلاف قرارداد منظور کرنا مشکل ہوگا۔
انھوں نے مزید کہا: تاہم، جنگی جرائم کے ارتکاب کے بارے میں کافی ثبوت جمع کرنے کی صورت میں، ایران اس کیس کو انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (ICC) کے حوالے کر سکتا ہے تاکہ ان حملوں کے ذمہ دار کمانڈروں یا اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔
سیاسی امور کے اس ماہر نے یہ بھی یاد دہانی کرائی کہ بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) عام طور پر ممالک کے درمیان تنازعات پر توجہ دیتی ہے نہ کہ جنگی جرائم پر، لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ان حملوں کا مقصد ایران کے عوام کی اجتماعی تباہی یا انسانی المیہ پیدا کرنا تھا، تو وہاں بھی مقدمہ دائر کرنا ممکن ہے۔
امریکی اثر و رسوخ اور انصاف کا حصول مشکل
علی مطر نے آخر میں زور دے کر کہا: بدقسمتی سے، یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ امریکہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں پر وسیع اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ لہٰذا، امریکہ اور اسرائیل کی مذمت کرنے یا حتیٰ کہ ان سے معاوضہ حاصل کرنے کے لئے فیصلہ کن نتیجہ حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ تاہم، اس کیس کی قانونی اور سیاسی پیروی، جارحیت کو ریکارڈ کرنے اور تاریخ اور عالمی ضمیر میں اس کی غیرقانونی نوعیت کو بے نقاب کرنے کے لئے ایک ضروری اور اہم اقدام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ